سیاسی مکالمے یا ادارہ جاتی رابطہ؟ پی ٹی آئی کی حکمت عملی پر نئی بحث۔

 

وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جماعت سیاست دانوں سے مکالمہ کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی خواہاں ہے، جس سے ان کا مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا لگتا ہے۔ ان کا یہ بیان خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے ریاستی اداروں کو پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دینے کے بعد سامنے آیا۔ پی ٹی آئی قیادت لاہور میں عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کے آغاز کے سلسلے میں موجود تھی۔


عمران خان کی گرفتاری کے بعد سے پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی گئی ہے۔ اگرچہ پارٹی کا مؤقف ہے کہ مقدمات سیاسی انتقام پر مبنی ہیں، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ قانونی عمل مکمل شفافیت سے جاری ہے اور عدالتیں آزاد ہیں۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاجی حکمت عملی اپنانا اور 5 اگست کو "یوم سیاہ" کے طور پر منانا سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ نے واضح کیا کہ اگر احتجاج پرامن ہو تو یہ جمہوری حق ہے، لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی صورت میں کارروائی کی جائے گی۔


یہ معاملہ اب ایک وسیع تر سیاسی سوال کی صورت اختیار کر چکا ہے: کیا قومی بحرانوں کے دوران سیاست دانوں کو اداروں سے براہ راست بات چیت کرنی چاہیے یا باہمی سیاسی مکالمے سے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے؟ بعض مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کا ادارہ جاتی رابطہ ملکی سیاست میں طاقت کے غیر روایتی مراکز کی حقیقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، جب کہ دیگر کا ماننا ہے کہ حقیقی جمہوریت کا تقاضا ہے کہ سیاسی معاملات صرف سیاست دانوں کے درمیان ہی طے ہوں۔ آنے والے ہفتے اس بحث کو مزید گہرائی فراہم کریں گے، خاص طور پر اگر احتجاجی تحریک زور پکڑتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاہلگام حملے سے جنگ بندی تک – پاک بھارت کشیدگی کی مکمل کہانی

آپریشن سندور – بھارتی فوج کی جوابی کارروائی اور اس کے اثرات

اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس کی سماعت 5 جون کو ہوگی