پاکستان اور ایران کے درمیان مجوزہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ مواقع، چیلنجز اور علاقائی اثرات۔
پاکستان اور ایران کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA) کا مسودہ حتمی مرحلے میں پہنچ جانا بلاشبہ ایک اہم معاشی پیش رفت ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے ٹیرف کم یا ختم کرنے کے لیے اشیاء کی فہرست کا تبادلہ اس بات کا اشارہ ہے کہ باہمی تجارت کو نئے سرے سے مستحکم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم، اس معاہدے کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں حکومتیں زمینی سطح پر رکاوٹیں، جیسے کہ نان ٹیرف رکاوٹیں، موسمی پابندیاں اور سرحدی راستوں کی بندش، کس حد تک مؤثر انداز میں حل کرتی ہیں۔
بارٹر ٹریڈ کے حوالے سے وزارتِ تجارت کی جانب سے نیا SRO متعارف کروانا تجارتی سرگرمیوں میں سہولت پیدا کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ خاص طور پر بلوچستان کے کاروباری حلقے، جو ایران کے ساتھ تجارت میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں، ان اقدامات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اگر ان کی آواز کو پالیسی سازی میں شامل رکھا جائے۔ بادینی کراسنگ کی بندش جیسے مسائل نہ صرف ایران بلکہ افغانستان کے ساتھ تجارت کو بھی متاثر کرتے ہیں، اس لیے اس مسئلے کا حل فوری نوعیت کا ہونا چاہیے۔
وزیرِ تجارت جام کمال خان کی جانب سے ایران کے ساتھ 10 ارب ڈالر سالانہ تجارت کا ہدف پرعزم ہے، لیکن اس کے لیے انفراسٹرکچر کی بہتری، نجی شعبے کی شمولیت، اور علاقائی سفارت کاری میں تسلسل ضروری ہوگا۔ اگر سرد خانوں کی تعمیر، بارڈر روڈز کی بہتری، اور کنٹینرائزیشن جیسے منصوبے عملی صورت اختیار کرتے ہیں تو نہ صرف تجارت بڑھے گی بلکہ سرحدی علاقوں میں روزگار اور ترقی کے نئے دروازے بھی کھلیں گے۔ یہ معاہدہ صرف دو ممالک کی تجارت نہیں بلکہ پورے خطے کے اقتصادی توازن کو متاثر کر سکتا ہے، بشرطیکہ اسے وژن، مشاورت اور عملدرآمد کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔
Comments
Post a Comment