سندھ طاس معاہدے پر بھارت-پاکستان تنازع: ثالثی عدالت کی حیثیت پر سوال اور خطے میں آبی سلامتی کے خدشات
بھارت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بار پھر یہ مؤقف دہرایا گیا ہے کہ ثالثی کی عدالت، جو 1960 کے سندھ طاس معاہدے کے تحت قائم کی گئی، "قانون کی نظر میں کوئی وجود نہیں رکھتی۔" بھارت کا کہنا ہے کہ اس عدالت کا قیام غیرقانونی تھا اور اس کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی فیصلہ قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ خاص طور پر جون میں جاری ہونے والے "Supplemental Award on Competence" کو بھارت نے مسترد کر دیا ہے، جب کہ اس کے برعکس، عدالت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ یک طرفہ اقدامات عدالتی دائرہ اختیار کو ختم نہیں کرتے۔
یہ تنازعہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھارت نے اپریل میں کشمیر میں عسکری حملے کے بعد سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔ بھارت کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان "قابل اعتماد اور ناقابل واپسی انداز میں" سرحد پار دہشت گردی کی حمایت ترک نہیں کرتا، تب تک وہ معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کرے گا۔ پاکستان اور عدالت دونوں اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معاہدے کے تحت قائم کردہ ثالثی نظام کو یک طرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا، اور عدالتی کارروائیاں معاہدے کی شقوں کے مطابق جاری رہیں گی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ قانونی تنازع ایک بڑے سفارتی اور ماحولیاتی چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ سندھ طاس معاہدہ جنوبی ایشیا میں پانی کی تقسیم کے لیے ایک مثالی اور طویل المدتی فریم ورک سمجھا جاتا رہا ہے۔ اگر اس تنازع کو سفارتی مذاکرات کے ذریعے حل نہ کیا گیا تو اس سے نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھے گی بلکہ خطے کی آبی سلامتی اور بین الاقوامی ثالثی کے کردار پر بھی سوالات اٹھیں گے۔ اس صورتِ حال نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی حیثیت صرف تبھی مضبوط ہو سکتی ہے جب ریاستیں سیاسی ارادے کے ساتھ ان پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
Comments
Post a Comment