قطر پر اسرائیلی حملہ اور او آئی سی اجلاس سفارتی ردعمل یا عملی اقدام؟
پاکستان اور مصر کی جانب سے اسرائیلی حملے کی مشترکہ مذمت کو خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک نے نہ صرف قطر کی خودمختاری کے دفاع پر زور دیا بلکہ آئندہ او آئی سی اجلاس کے لیے تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ یہ صورتحال اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ مسلم ممالک اس حملے کو محض نظر انداز نہیں کرنا چاہتے بلکہ اسے بین الاقوامی فورمز پر اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ آیا او آئی سی اجلاس میں صرف بیانات اور قراردادیں سامنے آئیں گی یا پھر اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اور اجتماعی لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ ماضی میں اکثر اجلاس الفاظ تک محدود رہے ہیں جس کے باعث عوامی سطح پر مایوسی پائی جاتی ہے۔ اس بار توقعات زیادہ ہیں، لیکن خدشات بھی موجود ہیں کہ عملی اقدامات کے بجائے معاملہ دوبارہ سفارتی سطح پر ہی رہ جائے گا۔
اسرائیل کا قطر پر حملہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ خطے کے امن کے لیے ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔ اگر مسلم ممالک اجتماعی ردعمل دینے میں ناکام رہے تو اس کا پیغام کمزور ثابت ہوگا۔ لیکن اگر اس اجلاس سے کوئی ٹھوس اور مشترکہ حکمت عملی سامنے آتی ہے، تو یہ نہ صرف قطر بلکہ پورے خطے کے لیے امید کی ایک نئی کرن بن سکتی ہے۔
Comments
Post a Comment