"چین-امریکہ رقابت اور پاکستان کی سفارتی حکمتِ عملی توازن کی راہ میں چیلنجز اور امکانات"
اکیسویں صدی کے بین الاقوامی نظام کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی رقابت ہے۔ تجارتی تنازعات، تکنیکی برتری، فوجی جدیدیت، اور بحرالکاہل میں سیاسی اتحادوں کی تشکیل نے اس مسابقت کو کثیرالجہتی بنا دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان، جو وسطی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، ایک نہایت نازک جغرافیائی اور سفارتی مقام رکھتا ہے۔ اسلام آباد کو اس نئی عالمی صف بندی میں اپنے معاشی مفادات، سفارتی توازن، اور اسٹریٹجک اہداف کو بیک وقت برقرار رکھنا پڑ رہا ہے — جو کہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی نے حالیہ برسوں میں ایک منفرد توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین کے ساتھ اس کے تعلقات "ہمہ موسمی شراکت داری" کی بنیاد پر قائم ہیں، خاص طور پر سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے ذریعے بیجنگ کی سرمایہ کاری نے پاکستان کی معیشت میں نئی روح پھونکی ہے۔ دوسری طرف، امریکہ اب بھی پاکستان کے لیے انسدادِ دہشت گردی، افغانستان میں استحکام، اور مالیاتی تعاون کے حوالے سے ایک اہم شراکت دار ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتے تناؤ کے باوجود اسلام آباد نے ایک "غیر جانبدارانہ" مؤقف اختیار کیا ہے، جس سے نہ صرف اس کی سفارتی ساکھ مضبوط ہوئی ہے بلکہ عالمی سطح پر اسے ایک پل کی حیثیت بھی حاصل ہوئی ہے۔
تاہم، اس توازن کو برقرار رکھنا آسان نہیں۔ چین کے ساتھ گہرے تعلقات بعض اوقات امریکہ کے شکوک و شبہات کو بڑھاتے ہیں، جبکہ امریکہ کے ساتھ تعاون بیجنگ کے لیے حساس موضوع بن سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے سب سے اہم حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو واضح، شفاف، اور قومی مفاد پر مبنی رکھے۔ اقتصادی سفارت کاری، کثیرالطرفہ فورمز میں فعال کردار، اور خود مختار پالیسی سازی وہ عوامل ہیں جو پاکستان کو اس عالمی رقابت میں توازن قائم رکھنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ اگر اسلام آباد اپنی داخلی معیشت کو مضبوط اور سفارتی حکمتِ عملی کو منظم رکھے، تو وہ نہ صرف چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ مثبت تعلقات برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے۔
Comments
Post a Comment