کہیں دیر نہ ہوجائے

 



پاکستان کی پالیسیوں اور دہشت گردی کے بحران کا تجزیہ

جو قوم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بجائے سہاروں پر انحصار کرے، وہ ہمیشہ اشاروں اور امیدوں کے سائے میں زندگی گزارتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی امریکی صدر کے ایک ’شکریہ‘ پر خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما کی حمایت میں امیدیں باندھ لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمارے لیڈر کی رہائی میں مدد کرے گا۔

ملک اس وقت سیاسی عدم استحکام کی شدید لپیٹ میں ہے، جبکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سائے مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مغربی سرحد مشرقی سرحد سے زیادہ غیر محفوظ محسوس ہوتی ہے—ایک طرف افغانستان اور ایران، دوسری طرف بھارت۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی پالیسیاں تھیں جنہوں نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا؟

اپنی صحافتی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات دیکھے، جن سے پہلے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ ہم دہشت گردی کے دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ اس کھائی سے نکلا جائے۔ 1979 اور 1981 میں ایران اور افغانستان میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے اثرات براہ راست پاکستان پر محسوس کیے گئے۔ اگر یقین نہ آئے تو تہران میں امریکی سفارت خانے سے برآمد ہونے والے 'پاکستانی پیپرز' پڑھ لیں۔ تبدیلیاں وہاں آئیں، مگر پراکسی جنگ پاکستان کے شہروں، خصوصاً کراچی میں لڑی جانے لگی۔ یہاں غیر ملکی عناصر بھی سرگرم تھے۔

ہم نے بدقسمتی سے اپنی سرزمین غیر ملکی جہادیوں کے حوالے کر دی، افغان جہاد کے نام پر۔ اس وقت خان عبدالولی خان نے خبردار کیا تھا:
"جو گولی آج کابل جا رہی ہے، وہ کل اسلام آباد کی طرف لوٹ سکتی ہے۔"

ہم گلوبل ٹیرر کے ریڈار پر بہت پہلے آ چکے تھے، مگر 1986 کے ایک واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ 4 یا 5 ستمبر کو کراچی ایئرپورٹ پر Pan-Am کا طیارہ، جو بمبئی سے نیویارک جا رہا تھا، لینڈ کرنے کے کچھ دیر بعد یرغمال بنا لیا گیا۔ چار مسلح افراد نے 362 مسافروں کو قید کر لیا۔ سات سے آٹھ گھنٹے بعد کمانڈو آپریشن میں 20 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں پاکستانی، بھارتی اور غیر ملکی شامل تھے۔ چاروں حملہ آور گرفتار ہوئے، ان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہوئی، اور 2005 میں ایک اہم قیدی کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔

افغانستان سے روس تو چلا گیا، مگر 50 ہزار سے زائد عرب اور افریقی ’مجاہدین‘ واپس نہ گئے، اور 50 لاکھ مہاجرین بھی پاکستان میں ہی بس گئے۔ اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ بڑھ گئی، کراچی اس کاروبار کا مرکز بن گیا۔ اوجڑی کیمپ کا سانحہ اور جنرل ضیاء الحق کا 17 اگست 1988 کا حادثہ، سب انہی پالیسیوں کا شاخسانہ تھے۔

طالبان کی پیدائش اور پاکستان پر اثرات

90 کی دہائی میں ایک اور بڑی غلطی کی گئی—طالبان کی حمایت۔ بعد میں انہی کے اندر سے تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے جنم لیا، اور پھر انتہا پسند اور شدت پسند گروہ بنتے چلے گئے۔

1993 میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہیں واضح طور پر کہا گیا کہ وہ افغان پالیسی سے دور رہیں۔ 1995 میں مصر کی انٹیلی جنس نے پاکستان میں سینکڑوں اخوان المسلمین کے ارکان کی موجودگی کی نشاندہی کی، جس کے بعد انہیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کے ردعمل میں اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر خودکش کار بم حملہ ہوا، جس میں 17 افراد ہلاک اور 62 زخمی ہوئے—یاد رہے، یہ سب 9/11 سے پہلے ہو رہا تھا۔

اسی سال کراچی میں امریکی سفارت خانے کی گاڑی پر فائرنگ سے دو امریکی سفارتکار مارے گئے، جبکہ پاکستان نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے میں ملوث رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کر دیا۔

9/11 کے بعد کی صورتحال

اگست 2001 میں، یعنی 9/11 سے ایک ماہ قبل، پاکستان نے تمام فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی لگا دی اور ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے۔ پھر 9/11 کے بعد، جنوری 2002 میں، تمام جہادی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن، القاعدہ کے رہنما اور طالبان کمانڈرز پاکستان کی طرف نکل آئے۔ حالات بدل چکے تھے، اور اب ہمیں اپنے ہی پیدا کردہ گروہوں سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

2002 کے بعد: پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی

مذہبی جماعتوں نے امریکی مداخلت کے خلاف نیا محاذ کھول لیا، اور 2002 پاکستان کے لیے خونی سال ثابت ہوا۔ کئی خودکش حملے ہوئے، کراچی میں تین حملے براہ راست امریکیوں پر کیے گئے۔ فرانسیسی انجینئرز کی بس پر حملہ ہوا، جس کی وجہ سے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم سیریز چھوڑ کر واپس چلی گئی۔

2006 میں، امریکی صدر جارج بش کے پاکستان دورے سے کچھ دن پہلے، کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے قریب ایک اور کار بم حملہ ہوا، جس میں ایک سفارتکار سمیت تین افراد ہلاک ہوئے۔

آج کی صورتحال: وہی مسائل، نئی شکل

ہم نے بڑے بڑے آپریشنز کیے—شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، مالاکنڈ جیسے علاقے دہشت گردوں سے خالی کرائے، مگر آج بھی وہاں ریاست کی رٹ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت آ چکی ہے، مگر اب ہمارا تنازع خود طالبان حکومت سے ہے، جو ہمارے سیکیورٹی اداروں کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ یا تو چینی انجینئرز بن رہے ہیں، یا پھر پنجاب سے آنے والے مزدور۔

کراچی آج 80 اور 90 کی دہائی کے مقابلے میں بہتر ہے، مگر VIP کلچر نے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ اگر دہشت گردی کا مطلب دہشت پھیلانا ہے، تو شاہ زین بگٹی جیسے سیاستدانوں کی سیکیورٹی پروٹوکول بھی کسی دہشت گردی سے کم نہیں—منہ پر نقاب، ہاتھوں میں گنز، بڑی گاڑیاں، اور عام لوگوں میں خوف و ہراس۔

کیا ہم سبق سیکھیں گے؟

یہ وقت ہے کہ مزاحمتی بیانات اور رسمی مذمتوں سے آگے بڑھ کر حقیقی اقدامات کیے جائیں۔ امریکہ اپنے شہریوں اور فوجیوں کے قاتلوں کا آخری دم تک پیچھا کرتا ہے، جبکہ ہم APS حملے کے ماسٹر مائنڈ کو قید سے فرار ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں۔

اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ہم نے امریکہ کے حوالے کیا تھا، تو اسے واپس لانے میں مسئلہ ضرور ہوگا—لیکن کم از کم ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم تو کریں۔

اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں، ورنہ وہی تاریخ خود کو دہراتی رہے گی، اور ہم اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

پاہلگام حملے سے جنگ بندی تک – پاک بھارت کشیدگی کی مکمل کہانی

آپریشن سندور – بھارتی فوج کی جوابی کارروائی اور اس کے اثرات

پاکستان اور یو اے ای کے درمیان دو طرفہ تعاون کے فروغ پر اتفاق